نئی دہلی، 30/ستمبر (ایس او نیوز /ایجنسی)سپریم کورٹ نے ایک مرتبہ پھر بلڈوزر کارروائی کے معاملے میں سخت رویہ اپنایا ہے۔ عدالت نے آسام کے سونا پور میں ہونے والی بلڈوزر کارروائی کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے نوٹس جاری کیا۔ جسٹس بی آر گاوائی اور کے وی وشواناتھن کی بنچ نے ریاست حکومت کو تین ہفتے کے اندر جواب دینے کا حکم دیا اور یہ بھی ہدایت کی کہ موجودہ صورتحال کو اگلی سماعت تک برقرار رکھا جائے۔ عدالت نے واضح کیا کہ آسام حکومت نے قبائلی زمین پر ناجائز تجاوزات کے الزام میں بلڈوزر کی کارروائی کی، جس کے بعد فاروق احمد سمیت 48 درخواست گزاروں نے اسے سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا۔ یاد رہے کہ 17 ستمبر کو سپریم کورٹ نے ملک بھر میں بلڈوزر کی کارروائی کو یکم اکتوبر تک روکنے کا حکم دیا تھا۔
بتا دیں کہ ۱۷؍ستمبر ۲۰۲۴ءکو جمعیت کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے غیر قانونی تعمیرات کے علاوہ دیگر معاملات میں بلڈوزر چلانے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ عدالت نے واضح کیا تھا کہ اس ہدایت کا اطلاق سڑکوں، فٹ پاتھوں یا ریلوے لائنوں پر غیر قانونی تعمیرات پر نہیں ہوگا۔ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ تمام فریقین کو سننے کے بعد وہ بلڈوزر کارروائی کے حوالے سے ملک بھر میں لاگو کرنے کیلئے رہنما اصول بنائے گی۔ جسٹس بی آر گاوائی اور جسٹس کے وی وشواناتھن کی بنچ نے یہ حکم مختلف ریاستی حکومتوں کی جانب سے ملزمین کی عمارتوں کو منہدم کرنے کی کارروائی کے خلاف دائر درخواست پر دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے ہدایات دیتے ہوئے کہا تھا کہ یکم اکتوبر تک ہماری اجازت کے بغیر ملک میں کہیں بھی بلڈوزر نہیں چلے گا۔ عرضی گزار جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں مسلمانوں کو نشانہ بنا کر بلڈوزر کی کارروائی کی جارہی ہے۔ سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے سپریم کورٹ کے حکم پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ افسران کے ہاتھ اس طرح نہیں باندھے جا سکتے ہیں ۔